“Pedagogy of the Oppressed”: A Challenge for the Left (Part 2 of 2) [Urdu]

Fawad Hasan continues his analysis of Paulo Freire’s masterful work on the use of education for revolutionary praxis and its relevance for the Pakistani Left today.


Image: Serpentine

In Jamhoor’s first article in Urdu, Fawad Hasan discusses the writings of noted Marxist philosopher and educator, Paulo Freire, in the context of his continued importance for Left organizing in Pakistan today. Hasan translates and contextualizes Freire’s thought in the Urdu vernacular while also advancing an internal critique of the methods of political organizing in Pakistan’s progressive spaces, drawing from Freire’s ideas on critical pedagogy. In light of these aims and intended audiences, this two-part article is being published only in Urdu.


گزشتہ سے پیوستہ۔۔

اپنی کتاب کے ابتدا میں ہی پاوؑلو فریری ہمیں دو اقسام کے رجعت پسند افراد کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں ۔ ایک وہ جو دائیں بازو کے رجعت پسند ہیں، جن کے اندر رجعت پسندی پوری طرح سے سرائیت کر چکی ہے ۔ جب کہ دوسرے وہ ہیں جو ہوتے تو بائیں بازو کے ہیں مگر مستقبل کے بارے میں اپنے من گھڑت ایمان کی وجہ سے رجعت پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ایک جانب تو دائیں بازو کا فرقہ پرست یا رجعت پسند ہوتا ہے جو سمجھتا ہے کہ دنیا ایک ناقابلِ تسخیر آبجیکٹ ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ لہذٰا انسان کو چائیے کہ وہ اس دنیا کے بنائے ہوئے اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو اسکے طریقے پر ڈھال لے۔ یہ ایسا ہی ہوگا کہ ایک انسان اس بات پر کما حقہ ایمان لے آئے کہ سرمایہ داری نظام ہی فقط نجات دہندہ ہے اور اسکے علاوہ کوئی نظام دنیا کو چلانے کی سکت نہیں رکھتا۔ اور اسے سرمایہ داری نظام میں ہی اپنی جگہ بنا لینی چاہئے، یعنی اپنے آپکو آمادہ کرلینا چاہیئے کہ یا تو اپنا استحصال کروائے یا خود کسی اور کا استحصال کرے۔ اس لئے کہ اور کوئی راہ دنیا میں نہ موجود ہے نہ سرے سے نکالی جا سکتی ہے۔  
دوسری طرف ہیں بائیں بازو کے رجعت پسند یا فرقہ پرست جن کو مکمل یقین ہے کہ دنیا خود بخود تبدیل ہوجائے گی چاہے وہ کوئی کاوش کریں یا نہ کریں۔ یعنی ایسے افراد ایک طے شدہ مستقبل پر اندھااعتقاد رکھتے ہیں۔ و سمجھتے ہیں کہ انکی اٹھنے سے معاشرہ تبدیل نہیں ہوگا بلکہ معاشرہ خود با خود اشتراکی نظام کی طرف چلا جائے گا۔ وہ اسے جدلیاتی مادیت کے ذریعے بھی ثابت کرتے ہیں اور اپنی اس فکر کے لئیے مارکس کے خیالات کا بھونڈا استعمال کرتے ہیں۔  پاوؑلو کا ماننا ہے کہ اس دوسری قسم کے رجعت پسند اپنے آپ کو اور اپنے خیالات کو ایک جامد سوچ میں ہمیشہ کے لئیے مقید کر دیتے ہیں۔ یہ گمان کر کہ (مثال کے طور پر) جیسا کارل مارکس نے کہا ہے عین ویسا ہی مستقبل میں ہوگا، یہ لازم و ملزوم ہے اور انکو کسی قسم کی زحمت اٹھانے کی ہر گز ضرورت نہیں۔ گویا انقلاب کسی درخت میں لگے سیب کی مانند ہے جو کششِ ثقل کے باعث ایک دن خود دھڑام سے زمین پر آگرے گا۔
کیا ہمارے آس پاس ہمیں دونوں وضع کے رجعت پسند نہیں دکھائی دیتے؟

ایک انقلابی شخص کبھی بھی ان دونوں اقسام کے افراد کی طرح اپنی سوچ میں جامد کھڑا نہیں ہوتا اور نا ہی وہ اپنے من گھڑت نظریہِ یقینی کا قیدی بنتا ہے۔ بلکہ وہ حقیقیت اور دنیا کو تسخیر کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اس کو سمجھتا ہے اور پھر اس کو تبدیل کرنے کی راہیں ڈھونڈتا ہے۔ اور وہ فقط خود نہیں بلکہ اور لوگوں کے ساتھ مل کر اس کارِ اہم کو سر انجام دیتا ہے۔
پاوؑلو ایک تاریخی جملہ ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’انقلابی رہنما کبھی بھی عوام کے بغیر نہیں سوچتا، نا ہی وہ عوام کے لئیے سوچتا ہے۔ بلکہ ایک انقلابی رہنما عوام کے ساتھ مل کر سوچتا ہے۔
یہ نہایت اہم نکتہ ہے۔ کیونکہ آج جو حالات خاص کر جنوبی ایشیا میں ہیں جہاں بائیں بازو کی سیاست کسی زمانے میں خاصی متحرک ہوا کرتی تھی وہ اسی وجہ سے اس مقام تک پہنچی ہے۔ کیا ہمارے یہاں بائیں بازو کی جماعتوں نے (مثلاً کمیونسٹ پارٹیوں نے) عوام کے ساتھ مل کر کام کرنا، سوچنا ، لکھنا پڑھنا چھوڑ نہیں دیا؟ ایک وقت تھا جب یہیں ماو زے تنگ یہ کہا کرتا تھا کہ پارٹی لائن عوام سے آئے گی اور پارٹی اس پر کار بند ہوگی۔ یا اگر لاطینی امریکہ کی بات کریں وہاں چیئرمین گونزالو نے مارکسزم لینن۔ازم ماوؑازم کو عوام کے ساتھ سمجھتے ہوئے ملک پیرو کے حالات پر مبنی ایک نیا فلسفہ پیش کیا جو وہاں گوریلا جنگ کے لئیے آج تک ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاوؑلو کے نزدیک اس انحطاط کی وجہ یہ ہوگی کہ ہمارے یہاں ڈائیلاگ ہونا ختم ہوگیا۔ ڈائیلاگ کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ڈائیلاگ دراصل انسانوں کے مابین ایک عمل ہے جس کا مقصد ہوتا ہے کہ دنیا کے بارے میں کوئی نظریہ قائم کیا جائے۔ وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ڈائلاگ "لفظ" کو جنم دیتا ہے۔ کونسا لفظ؟ دنیا کو تبدیل کرنے کا لفظ ۔ اس لفظ کے دو پہلو ہیں، ایک سوچ ہے اور دوسرا اس سوچ پر عمل کرنا۔ سوچنا اور عمل کرنا دونوں اہم پہلو ہیں۔ اسکو انگریزی میں کہیں گے ایکشن اور ریفلیکشن۔ اگر انسان بیک وقت ان دونوں پہلؤوں پر کام نہ کریں تو نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔ اگر انسان عمل یعنی ایکشن پر توجہ نہ دے تو بس پھر ڈائیلاگ صرف ایکٹوازم رہ جاتا ہے۔ جب کہ اگرصرف عمل کے بجائے سوچ پر توجہ دے تو یہ زبانی باتیں یا وربل ازم رہ جاتا ہے۔  یہ ڈایئلاگ ہی تو وہ عمل ہوتا ہے جسکی بدولت ہم معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی رونما ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس کو یوں سمجھئیے کہ یہ ایک طرح کی پراکسس ہے۔ پراکسس کے معنیٰ ہیں عمل اور غور و فکر کا امتزاج۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے لئیے نا گزیر ہیں، لازم و ملزوم ہیں۔ اور اگر یہ ایک دوسرے سے علیٰحدہ ہوجائیں تو پھر عملی پراکسس بھی پراکسس نہیں رہتی۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہماری یہاں سماج کو گہری تحقیق کے ذریعے سمجھنے کا کام اب نہ ہونے کے برابر ہے، رہی سہی کسر مابعدِ جدیدیت کے اثرات نے پوری کردی ہے۔ اگر کسی پارٹی کا پروگرام بنایا بھی جاتا ہے تو وہ اکثر اوقات عوام کی رائے یا انکی لائن سے عاری ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں اب کب ایسا ہوتا ہے کہ انقلابی رہنما محکوم لوگوں کے اندر جا کر رہیں اور نا صرف انکی رہنمائی کریں بلکہ سماج کی پیچیدگیوں کو بھی خود انسےسمجھیں اور سیکھیں؟
پاوؑلو کا ماننا ہے کہ اس قسم کے ڈائیلاگ (جو ایک انقلابی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے عوام کے اندر جاکر کرے) کے لئیے چند شرائط ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ وہ شرائط کیا ہیں اور ذہن میں یہ بات بھی رکھیں کہ ہمارے خطے کی پارٹیاں یا انقلابی گروہ اس شرائط پر کس قدر کار بند ہیں 
ڈائیلاگ کے عمل میں شریک ہونے کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی شرط ہے محبت کا جذبہ۔ پاوؑلو کے نزدیک اس جذبہ کے بغیر ایک انقلابی ہرگز ڈائیلاگ میں شریک نہیں ہو سکتا۔ انسان تب ہی دنیا کو بدلنے کی خواہش کر سکتا ہے جب وہ بیک وقت دنیا سے اور دنیا میں بسے محکوم و مظلوم لوگوں سے بے انتہا محبت کرتا ہو۔  پاوؑلو رقم دراز ہیں: "اگر میں دنیا سے محبت نہیں کرتا۔ اگر میں زندگی سے محبت نہیں کرتا۔ اگر میں عوام سے محبت نہیں کرتا تو میں ڈائیلاگ میں شریک نہیں ہوسکتا"۔
دوسری شرط ہے عاجزی۔ ایک انقلابی غرور کے ساتھ عوام میں کام کرکے تبدیلی کا خواہاں نہیں ہو سکتا۔ اگر ایک انقلابی ہمہ وقت دوسرے لوگوں کو اپنا علم جھاڑتا رہے اور انکی کم علمی کا مزاق بھی بنائے تو ایسا شخص کبھی عوام کا دوست نہیں ہوسکتا۔ یہ شخص بھی کبھی ڈائیلاگ میں شامل نہیں ہوسکتا۔  ایسا تب ہوتا ہے جب کچھ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انکی علم پر حاکمیت ہے اور صرف وہ ہی دنیا کا سچ جانتے ہیں۔ ایسے افراد پاوؑلو فریری کے نزدیک کبھی ڈائیلاگ میں کامیابی سے شامل ہوکر دنیا کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے۔
تیسری شرط ہے بنی نوع انسان پر اعتماد۔ یہ اعتماد ہونا کہ انسان اپنا مستقبل تبدیل کرنے کا حوصلہ اور جراٴت رکھتا ہے، وہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ مزید انسان بن سکے، مکمل انسان بن سکے، جو صرف دنیا کی چند اشرافیہ کی مراعت نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کا حق ہے۔
چوتھی شرط ہے امید۔ سرمایہ دارانہ نظام انسان کو ناامیدی کی طرف دھکیل دیتا ہے جس کے بعد اسے یقین ہونے لگتا ہے کہ یہ دنیا کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ مگر ایسے میں امید اپنا کام کرتی ہے، اورجب ایک انقلابی اس جبر کے ںظام سے لڑنے نکلتا ہے تو اسکو امید آ لیتی ہے۔ پاوؑلو کہتے ہیں کہ ڈائیلاگ امید کے بغیر جنم نہیں لے سکتا جبکہ ہمارے یہاں تبدیلی کے خواہشمند افراد میں نا امیدی موجود ہے۔
پانچویں اور نہایت اہم شرط ہے تنقیدی سوچ۔ انقلابی افراد کے لئیے ضروری ہے کہ وہ تنقیدی سوچ کے ساتھ ڈائیلاگ میں شریک ہوں کیونکہ یہ تنقیدی سوچ ہی ہے جو انسان کو یہ باور کرواتی ہے کہ سچائی ایک ہر لحظہ تبدیل ہونے والی شہ ہے نہ کہ ایک جامد چیز۔ تنقیدی سوچ کی ضد ایک ایسی بھولی سوچ ہوگی جو انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کردے کہ دنیا جیسی ہے ہمیشہ ویسی ہی رہے گی اور ہمیں اپنے آپ کو اس دنیا کے لئیے اچھا بھلا انسان بنانا ہے تاکہ ہم اس دنیا کے بتائے ہوئے معیار پر پورا اتر سکیں۔  تنقیدی سوچ کبھی بھی انسان کو عمل سے الگ نہیں کرتی، نا اسے غور و فکر کرنے سے روکتی ہے۔ اگر ایسا کرے تو پھر یہ تنقیدی سوچ نہیں رہے گی۔
بھلا ڈائیلاگ کے بغیر ایک انقلابی مستقبل کو کیسے خوبصورت بنا سکتا ہے؟ اور اس ڈائیلاگ کی شرائط کو پورا کئیے بنا وہ کیسے اس میں شریک ہو سکتا ہے؟ لیکن ان شرائط کو پورا کرتا ہوا کونسا انقلابی گروہ ہمارے خطے میں دکھائی دیتا ہے؟
پاوؑلو کہتے ہیں کہ ہم منہ اٹھا کر ایک مزدور یا کسان کے پاس نہیں جاسکتے اور اسے "بینکاری انداز" میں علم سے آراستہ نہیں کرسکتے۔ ہم اسکے دماغ میں اپنا وہ پارٹی پروگرام نہیں بھر سکتے جو اسکے علم کے بغیر ہم نے بنایا ہو۔ ’بہت سے تعلیمی منصوبے اس وجہ سے ناکام ہوگئے کیونکہ انکے بنانے والوں نے ان منصوبوں کو صرف اپنے علم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تخلیق کیا تھا، اور اس میں ان افراد کی سوچ، آراؑ اور نقطہ نظر  کو شامل ہی نہیں کیا تھا جن کے لئیے یہ منصوبہ دراصل بنایا گیا تھا۔‘ اگر کوئی سیاست دان یا رہنما عوام سے ہٹ کر اور معاشرتی مسائل و سچائی سے الگ ہوکر اپنا پروگرام تیار کرے جس میں ڈائیلاگ کو بھی نظر انداز کیا گیا ہو تو وہ دوسروں میں صرف بیگانگی یعنی الیئنیشن ہی پیدا کرے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں ایک بار پھر اس انداز میں کام کب شروع ہوگا جس کا فلسفہ اس تحریر میں بیان ہوا یا جو پاوؑلو نے اپنی انتہائی اہم کتابوں میں کیا ہے؟ کیا کبھی ہمارا بائیں بازو اپنے خمار سے نکل کر حیقیقی معنوں میں دنیا کو تسخیر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے عوام کے ساتھ مل کر سوچنے، مستقبل کو سوارنے، اور انسان کو مکمل انسان بنانے کی سعی کر گا؟
یہ تو وقت ہی بتائے گا۔۔

This is Part 2 of a two-part article. Click here for Part 1.

Fawad Hasan is a journalist covering human and labor rights stories in Karachi. He is also associated with land-rights organisation Karachi Bachao Tehreek. 



Previous
Previous

When Sri Lanka Operated Workers’ Councils

Next
Next

Colonial Legacies and Fascist Tendencies: Housing Segregation in the Indian City