“Pedagogy of the Oppressed”: A Challenge for the Left (Part 1) [Urdu]

An exposition in Urdu on Paulo Freire’s masterful work on the use of education for revolutionary praxis and its relevance for the Pakistani Left today


In Jamhoor’s first article in Urdu, Fawad Hasan discusses the writings of noted Marxist philosopher and educator, Paulo Freire, in the context of his continued importance for leftist organizing in Pakistan today. Hasan translates and contextualizes Freire’s thought in the Urdu vernacular while also advancing an internal critique of the methods of political organizing in Pakistan’s progressive spaces, drawing from Freire’s ideas on critical pedagogy. In light of these aims and intended audiences, this two-part article is being published only in Urdu.


جنوبی ایشیا میں یہ بحث کافی عرصہ سے زور پکڑ رہی ہے کہ آخر کیوں یہاں زیادہ تر ممالک میں بائیں بازو کی جماعتیں کوئی خاطر خواہ مثبت تبدیلی لانے سے قاصر رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے یہاں علم و تعلیم و تربیت پر اس شدت سے کام نہیں ہوا جس کا وقت متقاضی تھا۔ یہ اصطلاح علم و تعلیم و تربیت اپنے اندر ایک دنیا ہے جو جرمن آئیڈئیلزم اور فرانسیسی سوشلزم سے ہمارے پاس ہوتے ہوئے آنا چائیے تھی لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے دانش اور دانش سے محبت کا سلسلہ ہمارے خطے میں ناپید ہی ہوگیا ۔ نتیجتاً انقلابی تحریکیں بھی معدوم ہوتی چلی گئیں۔ بقول ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی صاحب کے۔
  راہ میں ٹوٹ گئے پاؤں تو معلوم ہوا
 جز مرے اور مرا راہنما کوئی نہیں
 ایک کے بعد خدا ایک چلا آتا تھا 
کہہ دیا عقل نے تنگ آ کے خدا کوئی نہیں 
 
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس خطے میں بھگت سنگھ، حسن ناصر، اور نظیر عباسی شہید جیسے جانباز مزدور طبقے کے رہنما پیدا ہونا ختم ہوگئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مذکورہ شہدا نے علم و آگاہی اور آزادی کے مطلب کو بالکل اسی طرح سمجھا جیسے چی گویرا اور فڈل کاسترو نے۔ اور اپنی عوام کے اندر رہ کہ بائیں بازو کی سیاست کو نہ صرف دوام بخشا بلکہ ہمیں یہ بھی سمجھایا کہ اصل آزادی ہے کیا۔ یہی نکتہ ہے جس پر مایہ ناز فلسفی ہیگل نے کہا تھا کہ اپنی جان جھونکوں میں ڈال کر ہی انسان آزادی کے حقیقی معنیٰ کو سمجھ سکتا ہے اور جو شخص کبھی اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالتا وہ انسان تو کہلائے گا مگر ابھی وہ اس سچ تک نہیں پہنچا جسے آزاد خود شناسی کہا جاتا ہے۔ 

 لیکن یہ خود شناسی یا خود آگہی جو ہمیں اس بات پر آمادہ کرے کہ موجودہ حالات تضادات سے بھرپور ہیں اور ان حالات کو  تبدیل کرکے ایک نیا انسانی معاشرہ تخلیق کرنا ہے، یہ آخر حاصل کیسے ہو۔ ہمارے یہاں بائیں بازو اور عوامی تحریکوں میں کثرت ان افراد کی ہے جو کہیں نہ کہیں سے پڑھ کر تحریک میں شامل ہوتے ہیں۔ یعنی زمانہِ طالبِ علمی سے ہی انکے اندر سچ کو جاننے کی ایک امنگ ہوتی ہے جو جامعہ کے باب تک پہنچ کر مزید پروان چڑھتی ہے اور پھر یہ فرد بائیں بازو سے وابستہ ہوتا ہے۔ 

 شاید یہی وجہ ہے کہ اس تعلیمی نظام سے اتنے ہی انقلابی افراد نکلے ہیں جو اس خطے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی لانے سے قاصر ہیں۔ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ انکا انقلابی ہونا بھی سرمایہ دارانہ تعلیمی نظام کی دین نہیں بلکہ دراصل انکے اندر کی انسانیت تھی جس کے تحت انہوں نے اس فرسودہ نظامِ تعلیم کے باوجود حق و سچ تک پہچنے کی کوشش کی۔ 

 کسی بھی انقلابی عمل کو شروع کرنے سے قبل اس گھتی کو حل کرنا نہایت اہم ہے کہ حقیقی تعلیم و آگاہی ہے کیا۔ آئیے اس پر بات کرتے ہیں اور اسکے لئیے پاؤلو فریری کی کتاب پیڈاگاجی آف دی آپریسڈ یعنی مظلوموں کی تعلیم و آزادی سے استفادہ کرتے ہیں۔

  پاؤلو فریری ملک برازیل کے ایک ایسے انقلابی فلسفی تھے جنہوں نے تعلیم کو مظلوموں کے لئیے ایک ہتھیار بنانے کی کوشش کی۔ ۔ فریری کی زندگی کا زیادہ تر وقت ان کسانوں کو تعلیم دینے میں گزرا جو سرمایہ داری اور جاگیر داری نظام میں بری طرح جکڑے ہوئے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے عملی طور پر اور اپنی نصانیف کے ذریعے مسلسل کوشش کی کہ مظلومینِ جہاں آزادی سے ڈرنے کے بجائے اس کو جدوجہد کرنے کے بعد گلے لگالیں۔ زیرِ نظر کتاب انہوں نے اپنی چھہ سالا جلا وطنی گزارئے کے بعد تصنیف کی ۔ اس کے بارے میں فریری خود لکھتے ہیں کہ یہ کتاب محض خیالات اور نظریات کی وجہ سے وجود میں نہیں آئی بلکہ یہ عملی و معروضی حالات و مشاہدات کا تجزیہ ہے۔ 

  اسی کتاب کے تناظر میں یہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارا مروجہ تعلیمی نظام اس بات پر مصر ہے کہ یہ دنیا ایک منجمد یا غیر تبدیل ہونے والی شے ہے اور رہتی دنیا تک ہمیں اپنے آپ کو اس کے سامنے سرنگوں رہنا ہے۔ بچپن سے ہی یہ سبق پڑھا دیا جاتا ہے کہ کامیابی کسے کہتے ہیں: سرمایہ درانہ نظام کی کامیابی۔ مثلاً غریب کی کامیابی ہے جلد از جلد امیر بن جانا۔ یعنی خود سرمایہ دار بن جانا اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ نہایت ناکام انسان ہے۔ اس سوچ کے ذریعے مظلوم (جس کو ہم محنت کش بھی کہہ سکتے ہیں) اپنے اندر ایک ظالم یعنی سرمایہ دار کو پیدا کرلیتا ہے۔ گویا وہ ہوتا تو مزدور طبقے کا فرد ہے لیکن وہ اپنی کامیابی، اپنی حس، اپنی انسانیت کو سرمایہ دار سے منسوب کرنا شروع کردیتا ہے۔ 

 روزِ اول سے جب انسان کو اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنی کامیابی تراشنے کا گر سکھایا جاتا ہے یا جس کو دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ فن جس سے دوسرے کے ہاتھ سے روٹی چھین کر اپنی جھولی میں ڈال لینا آجائے بجائے اس کے کہ ایسے حالات پیدا کئیے جائیں کہ جہاں ہر کسی کو روٹی حاصل ہو تو پھر ان انسان ساز فیکٹریوں نما جامعات و اسکول سے جو مخلوق نکلے گی اس کو آزادی سے ڈر و خوف ہی لگے گا۔ یہی پاؤلو فریری کا مدعا ہے۔ 

  فریری لکھتے ہیں کہ جب مظلوم ایک ظالم کا عکس اپنے اندر سمو لیتا ہے تو وہ ظالم کے اصول بھی اپنا لیتا ہے اور یوں آزادی سے خوف کھانے لگتا ہے۔ کیونکہ ظالم کو آخر اس گھٹن زدہ ماحول کے تبدیل ہونے سے خوف ہی ہوگا جس سے محکوم و مظلوم آزاد ہو جایں سو اس کی ہر ممکن کوشش رہے گی کہ یہ نظام نہ بدلے اور معاشرہ کبھی آزاد نہ ہو۔
 نتیجتاً فریری کہتے ہیں: "مظلوم دوئی (یعنی دو دھاری زندگی) میں پھنس کر رہ جاتا ہے جو کہ اس کے وجود میں جگہ بنا لیتی ہے۔ انکو اس بات کا اندازہ چاہے ہو بھی جائے کہ آزادی کے بنا وہ اصل زندگی نہیں جی سکتے۔ وہ بیک وقت خود اپنا آپ بھی ہوتے ہیں اور ظالم بھی جس کے (فاسق) شعور کو وہ اپنے اندر سمو چکے ہوتے ہیں"۔

  اسی مروجہ تعلیمی نظام کی وجہ سے انسان یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کیا ہے۔ اور یہ سوچنے لگ جاتا ہے کہ وہ وہی ہے جو اس کے پاس موجود ہے یا جو اسکی ملکیت ہے۔ مزید براں، جب کامیابی کو زیادہ سے زیادہ مال بنانے کے مترادف دیکھا جائے گا تو پھر ظالم کو دیگر انسان بھی اشیاء لگنے لگتے ہیں۔ اور ان کے اوپر حاکمیت قائم کرنا اس کا مزموم عزم بن جاتا ہے۔

  اسی ضمن میں معروف ماہرِ نفسیات ایریک فرام کہتا ہے کہ: "وہ لطف جو تب حاصل ہو جب ایک انسان دوسرے انسان پر حاکمیت کرنے لگے اذیت پسندی کی اساس ہوتا ہے۔ یہ بات اس طرح بھی کہی جا سکتی ہے کہ اذیت پسندی کا مقصد ہوتا ہے ایک انسان کو شے میں تبدیل کردینا کیونکہ کسی دوسرے انسان پر پوری طرح اپنی حاکمیت قائم کردینے سے انسان کی ایک اہم ساخت یعنی آزادی ہمیشہ کے لئیے صلب ہوجاتی ہے"۔  

   دورِحاضر کا تعلیمی نظام ہمیں ہرگز یہ نہیں سمجھنے دینا چاہتا کہ انسان کا وجود نامکمل ہے اور وہ ہر لحظہٰ اس کو تبدیل کرنے اور ترقی کی جانب گامزن کرنے میں مصروف ِعمل ہے۔ بلکہ تعلیمی نظام یہ سکھاتا ہے اور ہمیشہ سے اسکولوں کالجوں کے اساتذہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دنیا اور زندگی شروع دن سے ایسی ہی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔ یعنی اس میں جو جومظالم جاری ہیں انکا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قدرت نے ہی ایسا تخلیق کیا ہے۔

  اسی طرح جانور اور انسان کا فرق بھی ہمارا نظام ہمیں سمجھانے سے قاصر ہے۔ بلکہ یہ اس نظام کی ہی ناکامی ہوگی اگر یہ ہمیں سمجھا بھی دے۔ جانوروں کی کوئی تاریخ نہیں ہوا کرتی۔ جانور کی زندگانی محدود ہے جبکہ دوسری جانب انسان کی زندگی میں ایسی کوئی حد تاریخ میں دکھائی نہیں دیتی۔ ہر لمحہ انسان اپنی تخلیقی صلاحیت سے اپنی تاریخ کو رخ موڑ رہا ہوتا ہے۔ اسی انسان نے کبھی نام نہاد خداؤں کے خلاف بغاوت کی، تو کبھی اپنے ہاتھوں سے اپنے جھوٹے آقاؤں کو موت کے گھاٹ اتار کر آزادی کو گلے لگایا۔ تو کبھی جاگیرداری کا رستہ اپنی محنت بیچنا شروع کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے بند کردیا۔ تو آج جب سرمایہ دار سر پر تلوار لئیے کھڑا ہے تو یہ کوئی غیرمنطقی بات نہیں کہ ایک دن مظلوم اسکےہاتھ سے یہی تلوار لے کر اسی کو دائمی نیند سلا دے اور اپنا مستقبل سنوار دے۔

  لیکن حضرت انسان میں آج اتنی سکت نہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کھڑا ہوکر اپنی آزادی کو چھین لے۔ یوں اس لئیے ہے کہ تعلیم و تربیت کا ںظام سرمایہ داروں اور ظالموں کے ہاتھ میں ہے جہاں اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں بینکنگ کی طرح تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔  مطلب استاد کلاس میں جاتا ہے اور طلبہ کے دماغ میں اپنے سوچے سمجھے خیالات کو گھونپ دیتا ہے۔ اس کے لئیے دنیا بھی ایک آبجیکٹ یا شے ہے اور وہ طلبہ بھی جنہیں وہ دنیا کے بارے میں سمجھانا چاہتا ہے۔ یہ وہ بینکنگ کا نظام ہے جہاں ایک شخص ڈیپازٹ یا دخول کرنے والا ہے اور دوسری جانب شخص وہ جس کے دماغ میں خیالات ڈیپازٹ کئیے جارہے ہوں۔

   ہونا یہ چاہیئے جس کی ہمیں پاؤلو فریری بھی تعلیم دیتے ہیں کہ تعلیم کے عمل میں استاد اور طلبہ دونوں ایک دوسرے سے سیکھیں اور دنیا کو موضوعِ سخن بنا کر اس پر بحث کریں۔ صرف یہی نہیں بلکہ دنیا میں موجود مشکلات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے سیکھیں۔ ایسے میں دنیا ہماری آبجیکٹ ہو گی اور ہم اس کو سمجھنے والے سبجیکٹ۔

  یہی وہ شعور کی منزل ہے جسے انسان ہر ہر بار طے کرتا رہا ہے اور اسی کے سہارے دنیا کو تسخیر کرتا رہا ہے۔

  :بقول شاعر

 کتنی صدیاں گزاری ہیں ہم نے یہاں
 چاند سورج چمکتے دمکتے رہے
 تیرگی بھی رہی روشتی بھی رہی
 ختم ہوتے رہے جنم لیتے رہے
 بارشوں کے زمانے میں جلتے رہے
 حرف و معنیٰ کے مطلب بدلتے رہے
 زیر کرتے رہے مات ہوتے رہے
 ہم کے شاہوں کی سوغات ہوتے رہے
 قید ہوتے رہے اپنے پندار میں
 خود سمٹتے رہے اہناے افکار میں
 کوئی اعزاز دے ہم کو اس بات کا
 ہم زمانے کو پھر بھی بدلتے رہے
  
لیکن آج کا بائیں بازو ایسا کیا کرے کہ اس تعلیمی ںظام کے بر خلاف اپنی تحریک چلا کر لوگوں کو خرد کی اس منزل تک لے جائے جہاں اس ظالم سماج سے آزادی کی جھلک دکھائی دینے لگتی ہے؟

  جاری ہے۔۔۔۔۔۔

This is Part 1 of a two-part series of articles. Part 2 will be published shortly.

Fawad Hasan is a journalist covering human and labor rights stories in Karachi. He is also associated with land-rights organisation Karachi Bachao Tehreek. 

Previous
Previous

Colonial Legacies and Fascist Tendencies: Housing Segregation in the Indian City

Next
Next

21st Century Imperialism: A Debate Within the Pakistani Left - (Part 2)